0%

اندھیری رات کا راز: ایک منفرد واقعہ

 

یہ کہانی پرانی ہے، اتنی پرانی کہ وقت کی گرد نے اسے دھندلا کر دیا ہے۔ لیکن گاؤں کے کچھ بزرگ اب بھی اس واقعے کو یاد کرتے ہیں جیسے یہ کل ہی ہوا ہو۔ یہ گاؤں ایک وسیع جنگل کے کنارے آباد تھا، جہاں راتوں میں درختوں کی سرگوشیاں اور جنگل کی خاموشی ایک عجیب خوف کا سایہ بکھیرتی تھیں۔ گاؤں کے لوگ جنگل کے اندر جانے سے ڈرتے تھے، خاص طور پر رات کے وقت، کیونکہ وہاں ایک پراسرار واقعہ برسوں پہلے رونما ہوا تھا، جس نے اس گاؤں کی تقدیر بدل دی تھی۔

 

کہانی شروع ہوتی ہے ایک جوان آدمی، نام تھا حسن، سے۔ حسن اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا اور اپنی ماں کا لاڈلا۔ وہ بہادر اور نڈر تھا، لیکن اس کے دل میں ہمیشہ ایک عجیب تجسس رہتا تھا، جو اسے دنیا کی حقیقتوں کو کھوجنے پر مجبور کرتا تھا۔ جنگل کے بارے میں گاؤں میں بہت سی خوفناک کہانیاں مشہور تھیں، مگر حسن نے ان کہانیوں کو ہمیشہ بے بنیاد سمجھا۔ وہ مانتا تھا کہ یہ سب کہانیاں محض ڈرانے کے لیے بنائی گئی ہیں تاکہ لوگ جنگل سے دور رہیں۔

 

ایک رات حسن نے فیصلہ کیا کہ وہ اس خوف کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دے گا۔ اُس نے اپنے چند دوستوں کو اکٹھا کیا اور کہا، “ہمیں اس بات کا پتہ لگانا ہے کہ جنگل کے اندر کیا ہے۔ ہم نے زندگی بھر لوگوں کی باتیں سنیں، لیکن کبھی کسی نے خود جا کر نہیں دیکھا۔ میں جا رہا ہوں، اگر تم میں سے کوئی میرے ساتھ چلنا چاہتا ہے تو تیار ہو جاؤ۔” دوستوں نے پہلے تو ہچکچاہٹ دکھائی، مگر حسن کی بہادری اور اٹل ارادے کو دیکھتے ہوئے چار دوست تیار ہو گئے۔ وہ رات کا وقت تھا، آسمان پر بادلوں کا غلبہ تھا اور چاند کی روشنی مدھم ہو چکی تھی۔ حسن اور اس کے دوستوں نے مشعلیں جلائیں اور جنگل کی طرف روانہ ہو گئے۔ گاؤں کے بزرگوں نے انہیں روکنے کی کوشش کی، لیکن وہ اپنی ضد پر قائم رہے۔

 

جب وہ جنگل میں داخل ہوئے تو ابتدا میں سب کچھ معمول کے مطابق لگا۔ درختوں کی سرسراہٹ اور رات کے جانوروں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ لیکن جیسے جیسے وہ آگے بڑھتے گئے، جنگل کی خاموشی گہری ہوتی گئی۔ چند قدم اور چلنے کے بعد، اچانک سب کچھ خاموش ہو گیا۔ ہوا کی سرسراہٹ رک گئی، پرندے خاموش ہو گئے، اور ایک بوجھل خاموشی نے ہر طرف چھا لیا۔ حسن کے دوستوں نے اس پر شک ظاہر کیا اور واپس جانے کا مشورہ دیا، لیکن حسن نے انہیں تسلی دی کہ یہ صرف ایک اتفاق ہے۔ تھوڑی دور چلنے کے بعد، وہ ایک پرانے مندر کے کھنڈرات تک پہنچے، جس کے بارے میں کبھی کسی نے نہیں سنا تھا۔

 

مندر کے دروازے پر عجیب و غریب نشانیاں تھیں، اور اس کی دیواروں پر نامعلوم زبان میں کچھ لکھا ہوا تھا۔ حسن کے دوستوں کو خوف محسوس ہونے لگا، لیکن حسن کے اندر کا تجسس اور بڑھ گیا۔ اُس نے مندر کے اندر جانے کا فیصلہ کیا۔ جیسے ہی وہ مندر میں داخل ہوئے، ایک ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آیا اور مشعلوں کی روشنی دھندلی ہونے لگی۔ اندر کا ماحول نہایت ہی عجیب اور پراسرار تھا۔ ہر چیز پر جیسے وقت کی گرد جم چکی تھی۔ حسن نے دیواروں کو غور سے دیکھنا شروع کیا۔ وہ اس پراسرار تحریر کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اچانک ایک زور دار آواز آئی۔ سب دوست خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹے۔ ایک بھاری دروازہ خود بخود بند ہو گیا تھا اور انہیں باہر نکلنے کا راستہ نظر نہیں آ رہا تھا۔

 

اب ہر طرف گہرا اندھیرا تھا، اور اُن کے دلوں میں خوف نے جگہ بنا لی۔ حسن نے اپنی مشعل کو پھر سے جلایا اور کہا، “ہمیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، یہاں ضرور کوئی راستہ ہوگا۔” لیکن جیسے ہی وہ آگے بڑھنے لگے، ایک عجیب و غریب سایہ ان کے سامنے آیا۔ وہ سایہ نہ تو کسی انسان کا لگتا تھا اور نہ ہی کسی جانور کا۔ وہ ہوا میں معلق تھا اور اس سے ایک سرد اور لرزا دینے والی آواز نکل رہی تھی۔ حسن اور اس کے دوست ساکت ہو گئے۔ سایہ بولا، “یہ وہ جگہ ہے جہاں وقت رُک گیا ہے۔

جو یہاں آیا، واپس نہیں گیا۔” اُس کی آواز سرد اور بے روح تھی، جیسے صدیوں سے کوئی راز چھپائے بیٹھی ہو۔ دوستوں نے خوف سے پیچھے ہٹنا چاہا، مگر حسن نے ہمت کر کے کہا، “تم کون ہو؟ اور یہ جگہ کیا ہے؟” سایہ ہنسا، ایک مدھم اور لرزتی ہوئی ہنسی، اور بولا، “میں وہ ہوں جو تمہاری دنیا اور اس دنیا کے درمیان پل ہوں۔

یہ مندر اُس دور کا ہے جب انسانوں اور جنات کے درمیان رابطہ ہوتا تھا۔ تم نے یہاں آ کر ایک دروازہ کھول دیا ہے، جو صدیوں سے بند تھا۔ اب تمہیں وہی ملے گا جو تم نے تلاش کیا۔” حسن نے اپنے دوستوں کو پیچھے ہٹنے کا اشارہ کیا، لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ سایہ دھیرے دھیرے ان کے قریب آ رہا تھا۔

 

حسن نے اپنی مشعل اُٹھا کر اسے روکنے کی کوشش کی، لیکن وہ سایہ جیسے روشنی کو جذب کر لیتا تھا۔ حسن کے دوست ایک ایک کر کے بے ہوش ہونے لگے، اور حسن خود کو بے بس محسوس کرنے لگا۔ اچانک، سایہ غائب ہو گیا، اور مندر کے دروازے خود بخود کھل گئے۔ حسن کے باقی دوست خوفزدہ ہو کر بھاگ نکلے، لیکن حسن وہیں کھڑا رہا۔ اس نے سوچا کہ اگر وہ یہاں سے گیا تو وہ کبھی اس راز کو سمجھ نہیں سکے گا۔ اگلی صبح گاؤں والے حسن کے دوستوں کو بے ہوشی کی حالت میں جنگل کے کنارے پائے گئے، مگر حسن کا کوئی سراغ نہ ملا۔ گاؤں کے بزرگوں نے کہا کہ وہ مندر کبھی دوبارہ نظر نہیں آیا، جیسے وہ ہمیشہ کے لیے غائب ہو گیا ہو۔

 

حسن کے دوستوں نے اس رات کے واقعے کو کبھی نہیں بھلایا، اور انہوں نے گاؤں کے لوگوں کو یہ کہانی سنائی۔ کہا جاتا ہے کہ حسن آج بھی اس پراسرار دنیا میں قید ہے، جہاں وقت رکا ہوا ہے، اور وہ اُس راز کو جاننے کی کوشش کر رہا ہے جو اُس مندر کے اندر چھپا تھا۔ یہ واقعہ اُس دن سے لے کر آج تک گاؤں والوں کے دلوں میں خوف اور حیرت کا باعث بنا ہوا ہے۔ جنگل کے کنارے آج بھی لوگ اُس رات کو یاد کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ کوئی دوبارہ اس اندھیری رات کے راز کو کھوجنے نہ جائے۔

 

It seems like you're asking for quotes or biographical information, but could you clarify exactly what you're looking for? Are you asking for quotes about biographical writing, examples of famous biographies, or something else? Let me know how I can assist!

Sharing Is Caring:

Leave a Comment