یہ کہانی ایک دور دراز کے گاؤں “خاموش نگر” کی ہے، جو پہاڑوں اور جنگلات کے درمیان گھرا ہوا تھا۔ یہاں کی خاص بات یہ تھی کہ گاؤں والے ہمیشہ خاموش رہتے تھے، اور گاؤں میں بات چیت بہت کم ہوتی تھی۔ ہر شخص اپنی زندگی میں مگن تھا، جیسے کسی انجانے خوف نے ان کی زبانوں کو قفل لگا دیا ہو۔ گاؤں کے باہر ایک گھنا جنگل تھا جسے “خاموش جنگل” کہا جاتا تھا۔
وہاں جانے کی کسی کو اجازت نہیں تھی اور نہ ہی کوئی جانے کی ہمت کرتا تھا، کیونکہ گاؤں میں یہ کہانیاں عام تھیں کہ جو بھی اس جنگل میں گیا، وہ کبھی واپس نہیں آیا۔ بزرگوں کا کہنا تھا کہ جنگل میں پراسرار مخلوقات کا بسیرا ہے جو انسانوں کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیتی ہیں۔ مگر ان تمام کہانیوں کے باوجود، کچھ لوگ ان قصے کہانیوں کو محض افسانے سمجھتے تھے۔ کہانی شروع ہوتی ہے ایک نوجوان لڑکے، علی، سے۔ علی ہمیشہ تجسس سے بھرا رہتا تھا۔
وہ سوچتا تھا کہ آخر اس خاموش جنگل کے پیچھے کیا راز چھپا ہے۔ وہ اپنی دادی سے اکثر اس بارے میں سوال کرتا تھا، مگر دادی ہمیشہ اسے منع کرتی تھیں اور کہتی تھیں، “بیٹا، کچھ راز ایسے ہوتے ہیں جن کا معلوم ہونا ضروری نہیں۔ یہ جنگل اُن میں سے ایک ہے۔”
مگر علی کا تجسس بڑھتا گیا۔ ایک دن اس نے فیصلہ کیا کہ وہ خود جا کر دیکھے گا کہ اس جنگل میں ایسا کیا ہے جس سے لوگ اتنا ڈرتے ہیں۔ اُس نے اپنے دوستوں کو اپنے ارادے کے بارے میں بتایا، مگر سب نے اُسے پاگل قرار دیا اور کہا، “ہمیں اپنی زندگی سے محبت ہے، علی۔ اگر تم جانا چاہتے ہو تو اکیلے ہی جاؤ، لیکن ہمیں اس خطرے میں مت ڈالو۔
” علی اکیلے ہی جنگل کی طرف روانہ ہوا۔ یہ سردیوں کی رات تھی، اور آسمان پر چاند کی روشنی مدھم تھی۔ علی نے جیسے ہی جنگل کے اندر قدم رکھا، ایک عجیب سی خاموشی نے اُسے گھیر لیا۔ ہوا بھی جیسے رک گئی ہو، پرندے خاموش ہو گئے، اور درختوں کی سرسراہٹ غائب ہو چکی تھی۔ ہر قدم کے ساتھ، علی کو لگتا کہ وہ کسی غیر مرئی آنکھوں کی نگرانی میں ہے، مگر اُس نے اپنے خوف کو پیچھے چھوڑا اور آگے بڑھتا گیا۔ چلتے چلتے علی کو ایک پرانا، مٹی سے ڈھکا ہوا راستہ ملا۔
اُس نے وہی راستہ اختیار کیا، اور کچھ دیر بعد ایک کھنڈر جیسی جگہ پر پہنچا۔ یہ ایک پرانا مندر تھا، جس کی دیواریں ٹوٹی ہوئی تھیں اور اس پر وقت کی گرد جمی ہوئی تھی۔
علی کو حیرت ہوئی کہ یہ مندر یہاں کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کے بارے میں تو کبھی کسی نے ذکر بھی نہیں کیا۔ علی نے مندر کے اندر جانے کا ارادہ کیا۔ جیسے ہی وہ دروازے کے قریب پہنچا، ایک ہلکی سی سرگوشی اُس کے کانوں میں گونجی، “واپس چلے جاؤ، ورنہ تم ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جاؤ گے۔” علی ایک پل کے لیے رکا، مگر پھر اپنے دل کی بات سنی اور آگے بڑھ گیا۔
مندر کے اندر اندھیرا تھا، اور دیواروں پر پرانی تحریریں تھیں جو علی کو سمجھ نہیں آئیں۔ اُس نے ایک قدم اور آگے بڑھایا تو اچانک مندر کی دیواروں سے ایک روشنی نمودار ہوئی۔ وہ روشنی ایک چھوٹے چراغ سے نکل رہی تھی، جو مندر کے درمیان میں رکھا ہوا تھا۔ چراغ کی روشنی دھیرے دھیرے بڑھنے لگی، اور اُس کے سامنے ایک بوڑھا شخص نمودار ہوا۔
بوڑھے کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی، جیسے وہ صدیوں سے یہاں موجود ہو۔ وہ علی کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور بولا، “تم یہاں کیسے آئے؟ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اس جنگل میں قدم رکھنے والے کبھی واپس نہیں جاتے؟” علی نے ہمت جمع کی اور بولا، “مجھے اس جنگل کا راز جاننا ہے۔ میں ان کہانیوں سے ڈرتا نہیں ہوں۔
مجھے بتاؤ، یہ جنگل کیسا ہے؟” بوڑھا ہنسنے لگا، ایک مدھم سی ہنسی، اور بولا، “یہ جنگل تمہارے جیسے بے خوف لوگوں کا انتظار کرتا ہے۔
یہاں جو بھی آتا ہے، اُس کے دل کی سب سے گہری خاموشی ظاہر ہو جاتی ہے۔
تم نے کبھی سوچا ہے کہ گاؤں کے لوگ کیوں خاموش ہیں؟”
علی نے حیرانی سے پوچھا، “کیوں؟”
بوڑھا بولا، “کیونکہ وہ سب اس جنگل کے قیدی ہیں۔ وہ خاموشی میں زندہ ہیں، مگر ان کی آوازیں اس جنگل کے درختوں میں قید ہیں۔ جو کوئی یہاں آیا، وہ کبھی واپس نہیں گیا، بلکہ اُس کی آواز یہاں رہ گئی۔
اور اب، تم بھی اس خاموش نگر کا حصہ بننے جا رہے ہو۔” علی نے یہ سنتے ہی خوف سے پیچھے ہٹنا چاہا، مگر اُس کے قدم منجمد ہو گئے۔ بوڑھے نے کہا، “یہ جنگل اُن لوگوں کا قید خانہ ہے جو رازوں کے پیچھے جاتے ہیں۔
اب تمہاری باری ہے کہ تم بھی اس خاموشی کا حصہ بنو۔” اچانک علی کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا، اور وہ بے ہوش ہو کر گر گیا۔ جب علی کو ہوش آیا تو وہ گاؤں کے کنارے لیٹا ہوا تھا۔
اُس کے ارد گرد لوگ کھڑے تھے، مگر کوئی کچھ نہیں بول رہا تھا۔ علی نے اپنی آواز نکالنی چاہی، مگر اُس کے گلے سے کوئی آواز نہ نکلی۔ وہ خاموش ہو چکا تھا، ہمیشہ کے لیے۔ گاؤں کے بزرگوں نے اُسے دیکھا اور ایک دوسرے کی طرف افسوس بھری نظروں سے دیکھا۔
وہ جانتے تھے کہ علی نے خاموش جنگل کا راز جاننے کی کوشش کی تھی، اور اب وہ بھی اُن لوگوں میں شامل ہو چکا تھا جن کی آوازیں ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی تھیں۔
یہ “خاموش نگر” کا ایک اور واقعہ تھا، جسے سن کر لوگ ہمیشہ خاموش رہ جاتے تھے، کیونکہ اس گاؤں میں بات چیت نہیں ہوتی تھی، یہاں صرف خاموشی بولتی تھی۔
— **نتیجہ:** اس کہانی میں ایک گہرائی ہے جو یہ بتاتی ہے کہ کچھ راز ایسے ہوتے ہیں جن کا معلوم ہونا ضروری نہیں ہوتا، اور کبھی کبھار تجسس ہمیں ایسی جگہوں پر لے جاتا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی۔