تمام شہر ہے اپنا مگر اکیلا ہوں
ہے میرے ساتھ زمانہ مگر اکیلا ہوں
عجیب کیفیت بے قراریٔ دل ہے
ہجوم غم کا ہے نرغہ مگر اکیلا ہوں
تمہارے آنے سے ہی دور ہوگی تنہائی
ہے تیری یادوں نے گھیرا مگر اکیلا ہوں
چلا ہوں شہر ستم میں پیام امن لئے
بلند ہے مرا جذبہ مگر اکیلا ہوں
تو ساتھ دے تو میں چھو لوں بلندیٔ افلاک
مرا بھی عزم ہے اونچا مگر اکیلا ہوں
کچھ اور پیار کے جھرنے بہیں تو بات بنے
میں ہوں خلوص کا چشمہ مگر اکیلا ہوں
نہ جانے کیسی ہے قسمت مجھ ایک قطرے کی
ہوا ہوں شامل دریا مگر اکیلا ہوں
رہ وفا میں کوئی ہم سفر نہیں میرا
میں کارواں کا ہوں حصہ مگر اکیلا ہوں
کیا نہ ترک جہاں کو ہوا نہ صحرا نورد
بنا ہے لوگوں سے رشتہ مگر اکیلا ہوں
نہ جانے کھو گئی اپنائیت کہاں احسنؔ
لگا ہے اپنوں کا میلہ مگر اکیلا ہوں
احسن اعظمی
ہیں منفرد عمل سے یہ گفتار سے الگ
رہبر جدا ہیں قول سے کردار سے الگ
ہوں گے نہ غیر کے ستم آزار سے الگ
جب تک نہ ہوں گے ہم صف اغیار سے الگ
قصر خلوص ہو گیا مسمار اس طرح
بیٹھے ہیں لوگ سایۂ دیوار سے الگ
تہذیب کے زوال پہ حیرت نہ کیجئے
یہ عہد نو ہے سابقہ ادوار سے الگ
کر لیتے ہیں یہ جنبش ابرو سے گفتگو
ہیں اہل عشق زحمت اظہار سے الگ
ترک حیا نے چھین لیا مہ وشوں کا حسن
بے قدر ہیں یہ ہو کے حیا دار سے الگ
سرمایۂ حیات محبت وفا خلوص
دولت ہے اپنی دولت زردار سے الگ
شان خودی بچائے ہوئے مصلحت سے دور
میں جی رہا ہوں وقت کی رفتار سے الگ
احسنؔ کو آرزو نہیں نام و نمود کی
رکھتا ہے خود کو کوچہ و بازار سے الگ
احسن اعظمی
بگڑی ہوئی جب ہوتی ہے تقدیر کسی کی
کام آتی نہیں ایسے میں تدبیر کسی کی
دل جیت لئے اپنوں کے بیگانوں کے پل میں
گفتار میں ایسی بھی ہے تاثیر کسی کی
یہ فاتح اقلیم تو ہو سکتی ہے لیکن
دل جیت نہ پائی کبھی شمشیر کسی کی
تہذیب و تمدن کا چلن اٹھ گیا شاید
کرتا ہے کہاں اب کوئی توقیر کسی کی
اللہ رے یہ عدل یہ میزان عدالت
پاتا ہے سزا کوئی ہے تقصیر کسی کی
سوئے ہیں ابھی اہل جنوں قید قفس میں
پیروں میں کھنکتی نہیں زنجیر کسی کی
ہر لب پہ فقط امن کی باتیں ہوں خدایا
ہو وجہ فسادات نہ تقریر کسی کی
یہ حسن کا اعجاز ہے یا نشۂ مے ہے
ساغر میں اتر آئی ہے تصویر کسی کی
شہرت کی تمنا ہے تو کر جہد مسلسل
احسنؔ یوں ہی ہوتی نہیں تشہیر کسی کی
احسن اعظمی
سخت مشکل ہوا اب صاحب ایماں ہونا
نہیں اس دور میں آسان مسلماں ہونا
ہر قدم پر ہے یہاں راہزنوں کا خطرہ
ہم تو بے بس ہیں خدایا تو نگہباں ہونا
ختم ہوتا ہی نہیں سلسلۂ رنج و الم
مشکلوں نے مری سیکھا نہیں آساں ہونا
برکتیں رزق کی بڑھ جاتی ہیں اس کے دم سے
باعث خیر ہے گھر میں کوئی مہماں ہونا
دل میں ہو جاتا ہے طوفان قیامت برپا
دوش محبوب پہ زلفوں کا پریشاں ہونا
کاش کہہ دیں وہ محبت بھرے انداز میں پھر
میرے احسنؔ ذرا اک بار غزل خواں ہونا
احسن اعظمی
نشاط ہستیٔ فانی کی جستجو کیا ہے
جو بے ثبات ہے پھر اس کی آرزو کیا ہے
فنا کا ذائقہ چکھنا پڑے گا ہر شے کو
یہ حسن زیست یہ دنیائے رنگ و بو کیا ہے
ملے گا خاک میں تیرا غرور بھی ظالم
بڑے بڑوں کو زمیں کھا گئی ہے تو کیا ہے
تلاش یار میں صحرا نوردیاں کیسی
جو دل کے پاس ہے پھر اس کی جستجو کیا ہے
جمال یار کی تجھ سے مثال کیسے دوں
فلک کے چاند ترا حسن کیا ہے تو کیا ہے
ذرا سی بات پہ بہہ جائیں خون کی ندیاں
کوئی بتائے یہاں قیمت لہو کیا ہے
بدن کو نوچ لو بدلے میں روٹیاں دے دو
شکم کی بھوک کے آگے یہ آبرو کیا ہے
ہیں اب بھی ایسے مسلماں جو جانتے ہی نہیں
نماز روزہ کسے کہتے ہیں وضو کیا ہے
دلوں میں جذبۂ اخلاق ہو تو بات بنے
زباں سے امن کی بے فیض گفتگو کیا ہے
تلاش کرنا پھر اوروں کے عیب کو احسنؔ
تو پہلے جان لے انجام عیب جو کیا ہے
احسن اعظمی
دل میں ایمان تو ہے جذبۂ ایماں نہ سہی
ہم مسلمان تو ہیں شان مسلماں نہ سہی
رب کی رحمت کا سہارا ہی ہمیں کافی ہے
آج دنیا میں کوئی اپنا نگہباں نہ سہی
تین سو تیرہ نے یہ بدر میں پیغام دیا
عزم و ایمان ہے تو جنگ کا ساماں نہ سہی
ہم تو ہیں آج بھی تزئین گلستاں میں شریک
اپنے ہاتھوں میں نہیں نظم گلستاں نہ سہی
اسلحوں کی مرے قاتل کو ضرورت کیا ہے
تیر مژگاں ہے بہت خنجر و پیکاں نہ سہی
میں نے پلکوں پہ سجا رکھے ہیں اشکوں کے چراغ
میرے ٹوٹے ہوئے چھپر میں چراغاں نہ سہی
مال و زر پاس نہیں توشۂ الفت کے سوا
کوئی سامان تو ہے زیست کا ساماں نہ سہی
آج کی شب کسی بھوکے کی ضیافت کر دے
گھر میں تیرے نہیں احسنؔ کوئی مہماں نہ سہی
احسن اعظمی
کلیاں جہاں اداس ہوں گل میں پھبن نہ ہو
یا رب کہیں بھی ایسی بہار چمن نہ ہو
ہوتے نہیں ہیں معرکۂ عشق سر کبھی
دل میں اگر جنوں نہ ہو سر پر کفن نہ ہو
اک دن ضرور آئے گی پھر رت بہار کی
خوش میری بے بسی پہ اے چرخ کہن نہ ہو
شہر ستمگراں ہے یہ ممکن نہیں یہاں
اہل وفا سے زینت دار و رسن نہ ہو
کیسے وہ قوم ہوگی بھلا کامیاب آج
دیدا جس کا دل نہ ہو دل میں لگن نہ ہو
بے فیض ہر لباس ہے اے دختران قوم
پیراہن حیا ہی اگر زیب تن نہ ہو
بزم طرب سجائیے یا غم کی انجمن
پامال بس روایت گنگ و جمن نہ ہو
اس نسل نو سے کیسے ہو امید بہتری
جس کا عمل نہ خوب ہو بہتر چلن نہ ہو
افکار کی اڑان میں آ جاتی ہے کمی
قائم اگر تسلسل مشق سخن نہ ہو
احسنؔ نہ ہونا گردش حالات سے اداس
ہے کون جس کی زیست میں رنج و محن نہ ہو
احسن اعظمی
نفرت کے اندھیروں کو مٹا کیوں نہیں دیتے
لو شمع محبت کی بڑھا کیوں نہیں دیتے
چاہت ہے اگر امن کی اے امن کے خوگر
دیوار تعصب کی گرا کیوں نہیں دیتے
کیوں کرتے ہو خوں عدل کا منصب کی اہانت
منصف ہو تو مجرم کو سزا کیوں نہیں دیتے
اے رہبرو تم جیسے ہو گفتار میں یکتا
کردار کا سکہ بھی بٹھا کیوں نہیں دیتے
طارق سی فتوحات کا ارمان اگر ہے
ساحل پہ سفینے کو جلا کیوں نہیں دیتے
بنتے ہو جو تم اسوۂ اسلاف کے پیرو
دشنام طرازوں کو دعا کیوں نہیں دیتے
صف میں جو عدو صورت احباب ہیں ان کے
چہروں سے حجابات اٹھا کیوں نہیں دیتے
کیوں جاتے ہو تم مجھ کو لگاتے ہوئے ٹھوکر
پتھر ہوں تو رستے سے ہٹا کیوں نہیں دیتے
احسنؔ تمہیں پانا ہے جو معراج بلندی
سر رب کے حضور اپنا جھکا کیوں نہیں دیتے
احسن اعظمی
فضائے صحن چمن آج سازگار نہیں
یہاں بہار تو ہے رونق بہار نہیں
ہو لاکھ حسن صفت آپ ذی وقار نہیں
امیر شہر کی صف میں اگر شمار نہیں
سکون چھن گیا آسائشوں کے ملنے سے
ہے کون آج غموں سے جو ہمکنار نہیں
تباہیوں کی طرف گامزن ہے یہ دنیا
جہاں یہ امن ہو ایسا کوئی دیار نہیں
ہو اس طرح سے نگاہ جہاں میں قدر مری
خدائے وقت ہوں میں کوئی شہر یار نہیں
ہر ایک چشم کرم میں فریب پنہاں ہے
کوئی کسی کا حقیقت میں غم گسار نہیں
ملے گی کیسے یہاں پر کسی کو پیار کی چھاؤں
شجر خلوص کا اب کوئی سایہ دار نہیں
اسے ہی کیفیت عشق کہتے ہیں شاید
ہمیں سکون نہیں ہے انہیں قرار نہیں
ابھی تو کم ہے ترے تیر نیم کش کا اثر
ابھی یہ دل مرا طوفاں سے ہمکنار نہیں
اب اتنی گر گئی یہ سطح دوستی اپنی
ہمیں یقین نہیں ان کو اعتبار میں
شب فراق ڈرائے نہ خواب وحشت سے
ہمیں تو خواب کی باتوں کا اعتبار نہیں
خدا کے خوف سے عاری ہے اس کا دل احسنؔ
خطا پہ اپنی ذرا بھی جو شرمسار نہیں
احسن اعظمی